تنِ تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے
حسینوں سے، رقیبوں سے، غموں سے، غمگساروں سے
سُنے کوئی تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے
پہاڑوں سے، گُپھاؤں سے، بیابانوں سے، غاروں سے
ہمارے داغِ دل، زخمِ جگر کچھ ملتے جلتے ہیں
گُلوں سے، گُل رُخوں سے، مہ وشوں سے، ماہ پاروں سے
کبھی ہوتا نہیں محسوس وہ یوں قتل کرتے ہیں
نگاہوں سے، کنکھیوں سے، اداؤں سے، اشاروں سے
زمانے میں کبھی بھی قسمتیں بدلا نہیں کرتیں
اُمیدوں سے، بھروسوں سے، دلاسوں سے، سہاروں سے
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلّق تھا
دسہرے سے، دِوالی سے، بسنتوں سے، بہاروں سے
کبھی پتّھر کے دل اے کیفّ پگھلے ہیں نہ پگھلیں گے
مناجاتوں سے، فریادوں سے، چیخوں سے، پکاروں سے
(کیفؔ بھوپالی)
Comments
Post a Comment