کچھ دیر ٹھہر جا چلتے ہیں !
کچھ دیر ٹھہر جا چلتے ہیں
اب وقتِ نماز محبت ہے
اک سجدا کرلیں ساجن کو
اور پڑھ لیں اک تسبیح وہی
جو روزِ ازل سے لائے تھے
اک نام جو کندہ دل پر ہے
جب آنکھ سے آنسوں بہ نکلے
اور ہاتھ اٹھائیں کیا مانگیں
ای دوست ذرا اب رک جائو
اس دیس کی اٌس شھزادے سے
کچھ بات تو کرلیں گر چاہے
وہ موم سے گڑیا پہولوں سی
اک نظر یہاں گر دکھ جائے
مجھے میری ریاضت مل جائے
جو وقت کٹا جگ راتوں میں
اور عکسِ محبت باتوں میں
وہ سوزِ محبت مل جاۓ
کچھ دیر ٹھہر جا چلتے ہیں !
وہ دور افق پر تو دیکھو
کچھ خاص سی ہلچل ہے شاید
سب تارے ٹم ٹم کرتے ہیں
اور چاند نکھر کر نکلا ہے
اک ہالہ ان کے بیچ بندہا
اور چاند کڑے میں قابو ہے
سب جگنو اڑتے دیکھو نا
کچھ خاص اشارے کرتے ہیں
اور رات کی رانی بکھرے ہے
ہیں ہر سو خوشبو کا گھیرا
اور مدہم مدہم موسیقی
کوئے راگ چھڑا ہے اب دیکھو
ہاں گھنگھرو کی آواز سنو
اور رقص کا عالم لگتا ہے
ہر طرف اجالا ہے دیکھو
اب دور سمندر کے لہریں
کچھ خاص سروں میں گاتے ہیں
وہ دریاء آج روانی میں
اور اسکے بہتی پانی میں
کچھ خاص کشش سی لگتی ہے
اور بھینی خوشبو آتی ہے
ہاں سارے پرندے جاگے ہیں
اور جھیل بھی تغیانی ہے
سب جنگل کے حشرات سبھی
کیوں آج سروں میں گاتے ہیں
وہ مور تھریلا ناچے ہے
اور دور کبوتر اڑتا ہے
کیا آج وہی دن آیا ہے
جب رات ہے پورے جوبھن میں
اور بکھرے ہر اک بن بن میں
میں کیسے چھوڑ چلوں یارا
یہ رات محبت دیکھے گی
جب میرے محبت ہے گھر سے
کچھ خاص پہن کر نکلے گی
اور ہر سو بجلی بکھرے گی
یہ رات مجھے سئو سالوں کی
ہے ریاضت بعد ہے آج ملے
یہ رات ہے سب معراجوں پر
دیکھ آج ہے کتنی بھاری ہے
میں اپنے رب سے آج ملوں
یہ مجھ پے ہیبت تارے ہے
کچھ دیر ٹھہر جا چلتے ہیں !
وہ دیکھو آج عبادت کا
معراج ہوا ہے محبت کا
وہ نورِ مجسم نکلی ہے
اج قعبے سے بت خانے سے
اور اوڑہ کے چادر الفت کی
یوں لپٹی جیسے غلافوں میں
اک نظر جو دیکھے جھک جائے
وہ دیکھ وہاں سے وہ آئے
اک لڑکی سانجھ سویروں سی
اور لوگوں کی تقدیروں سی
وہ باغِ ارم جنت کی ہوا
اور نورِ مجسم چہرہ سا
یہ بعد صدیوں کی زاھد کو
اک پرتوو جیسے ملتا ہے
ہاں اس میں رب ہی دکھتا ہے
ہاں اس میں رب ہے دکھتا ہے
ذرا ٹھہر خدا کو دیکھیں ہم
اک سجدا کرلیں قعبے کو
جو سہوَ ہوئے سب معاف کرے
پھر پار نگر ہاں چلتے ہیں
کچھ دیر ٹھہر جا چلتے ہیں !
کچھ دیر ٹھہر جا چلتے ہیں !
کچھ دیر ٹھہر جا چلتے ہیں !
عمر تیونو
Comments
Post a Comment