نیندوں کے ملبے پر - ابرار احمد

نیندوں کے ملبے پر ۔...
اور پھر یوں ہوتا ہے
بارش کے پہلے قطرے
چہرے پر گر جاتے ہیں
کھلی چھتوں پر
رات کی تھکاوٹ سے بوجھل چار پائیاں
رسیوں سے باندھ کر
صحنوں میں اتاری جاتی ہیں
کنپٹی پر ' آوازوں کی دستک جاگتی ہے
باورچی خانے میں ناشتے کی خوشبو
اور چولھے کی تپش سے دہکتے ہوئے چہرے
اور ماں کا بوسہ ....
باپ کی آواز
تلاوت کرتی ہوئی
سکول تک چھوڑنے آتی ہے
اور تختہ سیاہ پر چاک
عمروں کا حساب کتاب کھینچنے لگ جاتا ہے
تفریح کا وقفہ
ہاتھاپائی - اور چھابڑی والوں کی آوازیں
تختیوں پر گاچنی ملتے ہوئے
اچھے بچے بننے کی کوشش
ٹاٹ سے اڑتی گرد
اور پھٹے ہوئے قاعدوں میں
دن - ڈوب جاتا ہے
ہم لوٹتے ہیں
اور شام کا لحاف ' منہ پر ڈالے
باہر نکل جاتے ہیں
بجھے ہوئے سویروں کی راکھ اڑاتی ہوا
ہر سمت سنسناتی ہے
آبادی سے پرے
ریلوے لائن پر چلتے ہوئے
دنوں طرف خانہ بدوشوں کی جھونپڑیوں سے اٹھتے
دھوئیں کو انکھوں میں بھرتے ہوئے
ہمارے قدم تیز ہوجاتے ہیں
کانٹے- بدل جاتے ہیں
ہم کتنی دور نکل آئے ہیں
سروں پر غیر محفوظ رات چلاتی ہے
اور حافظے کے پچھواڑے

نیندوں کے ملبے پر
عمروں کی بےخوابی سے ٹوٹی ہوئی
چار پائیاں اوندھی پڑی ہیں

(ابرار احمد)

Comments