مُلا ماجد کا خط- پڑوسن کی بہو کے نام

مُلا ماجد کا خط- پڑوسن کی بہو کے نام

پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے
اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سوئیے 

خوش  بخت : کہتے ہیں کہ گیدڑ کو موت آئے تو وہ شہر کو بھاگتا ہے۔ اب یہ تو ہمارے تمہارے سامنے کی بات ہے کہ شہر میں مہینوں بعد کبھی کوئی گیدڑ آئے تو آئے ورنہ کہاں۔ اور جو آتا ہے وہ بھی موت بن کرآتا ہے۔ گذشتہ ماہِ رمضان بھی کوئی گیدڑمنشی صاحب کے اصیل مرغے کی گردن مروڑ گیا تھا۔ علاوہ ان کے باقی گیدڑوں کی مرگ و حیات کے جملہ معاملات جنگل بیلوں میں ہی طے ہوتے ہیں۔ اسی طرح رنگین مزاج بڈھوں پر جوں جوں موت قریب آتی ہے وہ نوخیز حسیناؤں کی طرف لپکتے ہیں۔ ہمتِ مرداں کی ان پرانی نشانیوں کےعلاوہ باقی مرد تو اس عمر میں گیدڑوں کی طرح  کہیں ویرانے میں پڑے رہتے ہیں۔جی سخت مضمحل ہے۔ تمہاری صورت اپنی موت کو دبے پاؤں قریب آتے دیکھ رہا ہوں۔ دل اس حسرت سے پھٹا جاتا ہے کہ کاش  تجھ بلا کا سامنا دورِ جوانی میں ہوا ہوتا تو  اس مبارزت کا  کچھ مزہ تمہیں بھی  آتا۔ اب تو قلب ونظر کے شکار کا موسم گزر چکا۔یہ نحیف بڈھا سینے میں قیامت سا بیتاب دل رکھتے ہوئے بھی حسبِ منشا ہلنے سے قاصر ہے۔تیرےنخچیر کو یوں لگتا ہے کہ تُو کسی گدھ کی طرح کوئی مردہ شکار کرے ہے۔ صد حیف کہ دمِ مرگ اس ندامت کے اضافی عذاب میں بھی مبتلا رہوں گا۔  عمر میری ایک خانقاہ میں درس دیتے گزر گئی۔ جوانی خود ساختہ زہد میں رائیگاں گئی۔ اس کا کچھ اجر ہو بھی تو صرف خدا کے علم میں ہے۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ جس نفس کو ایک مدت دبانا چاہا آج اسی کے روبرو  شرمندہ  ہوں۔ یوسفِ دل !  ہاتھ میں جنبش نہیں کہ انگلیاں کاٹ کر تیرے حسن کو خراج دوں۔ یہ جو آنکھوں میں تھوڑا بہت دم ہے تیری  دید کے واسطے ہی ہے۔ خدا سےگڑگڑاتا ہوں کہ مجھ  خطاکارسے تو حقِ عبودیت ادا نہ ہوا لیکن تُو تو خداوند ہے۔ بی بی زلیخا کی طرح جوانی واپس نہیں مانگتا۔جانتا ہوں کہ تُو کہے گا  کہ جا او ڈھونگی!ً کہاں تو اور کہاں یہ مقام۔ بابِ نبوت بند ہوچکا۔ اور کھلا بھی ہوتا تو تیری محبوبہ ایک عورت ہوتے کیونکر اس پر فائز ہوپاتی۔ مالک! عمربھر کی نمازوں کا  بس یہ صلہ مانگتا ہوں دوبارہ جوانی نہ سہی لیکن ہاتھ پاؤں ہلانے کی اتنی سکت تو عطا فرما  جس قدر نماز کی ادائیگی میں صرف ہوتی ہے۔ یہی بات چیت جاری رہتی ہے۔ ہم تم دونوں گنہ گار ہیں۔ ہمارا خدا سے پہلا رشتہ ہی انتظار کا ہے۔  کتابی باتوں اور مجرد مسائل میں زندگی کھپا کر اب میں سوچتا ہوں کہ یہ سارا وقت تو خلاؤں میں ہاتھ مارتا رہا۔  اب کہ جب ہاتھوں کو تیرے  گداز جسم کا سامنا ہے آنکھوں کے سامنے ناگاہ  اندھیرا چھا نے لگتا ہے۔  پھرپرانی عادتیں آسانی سے کہاں جاتی ہیں۔ اب بھی دیکھ لو۔ میں عاشقی میں بھی حسابی کتابی بن گیا ہوں۔ تمہیں خط پہ خط لکھ رہا ہوں۔ قدم اٹھانے کی تاب نہ سہی، قلم گِھسانے میں مگن ہوں۔ صریر خامہ میں تیری سسکیوں کی شباہت ڈھونڈتا ہوں۔
جانِ شیدا ! اس بڈھے کے ہاتھوں لکھے لفظوں کو اپنے  بدن پر سرسراتے دیکھا کرو۔
فکرِ ہرکس بقدر ہمتِ اوست کا مقولہ سمجھو۔  پر تم کیوں سمجھو اور کیسے سمجھو۔ 
فکر  تو ہم نحیفوں کا وظیفہ ہے۔ جوبن کی عبادتیں کچھ اور ہیں۔  داڑھی گھنی اور لانبی ہو تو توند چھپ جاتی ہے۔ خدا کرے کہ ہمارا یہ سلسلہ بھی انہی ناکردہ کاریوں کے پردے میں سلامت رہے۔ از روئے احتیاط تاکید کرتا ہوں کہ اپنی ساس سے ہوشیار رہو۔اس عورت کو میں تب سے جانتا ہوں جب سے یہ بیاہ کے آئی ہے۔  نکاح بھی اسی عروس نا آشنا نے خود پڑھایا تھا۔ شروع دن سے اس کی نگاہ کہیں اور نشانہ کہیں ہوتا ہے۔  اوقاتِ نماز کا خاص خیال رکھو۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اس دوران میرے حجرے کی طرف نہ تو خود آؤ نہ ہی قاصد بھیجو۔ اُس اثنا میرا خادم بھی یہیں موجود ہوتا ہے۔   خدائے  لازوال تیرے شباب کا محافظ ہو۔ 

روز قیامت تک تیرا مبتلا
ملا ماجد  اشک پوری۔ فاضل ِ حیدرآباد
(تحریر: ابو بکر)

Comments